اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ کے سینئر وکیل زیڈ کے فیضان نے بریلی کی ایک عدالت کے ذریعے مولانا توقیر رضا کی درخواست ضمانت خارج کیے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے انتہائی افسوسناک قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ضمانت بنیادی حق ہے مگر مسلمانوں کے معاملات میں استغاثہ جانبدارانہ موقف اختیار کرتا ہے۔
پیوپلس اویرنس فورم کے صدر اور ایڈوکیٹ سپریم کورٹ زیڈ کے فیضان نے بریلی کی ایک عدالت کے ذریعے مولانا توقیر رضا کی درخواست ضمانت خارج کیے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے انتہائی افسوسناک قرار دیا ۔ انھوں نے کہا کہ ضمانت ایک بنیادی حق ہے جبکہ اس کو نامنظور کرنا ایک استثنی عمل اور یہ بات سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں اور آرڈر میں متعدد بار کہی ہے مگر افسوس کہ ذیلی عدالتیں اس پر عمل نہیں کر رہی ہیں ۔ یہ اس لئے بھی ہے کہ اگر ملزم ایک مسلمان ہے تو استغاثہ اس طرح سے فرضی بنیادوں پر کیس تیار کرتا ہے اور پبلک پراسیکیوٹر پیروی کرتا ہے کہ ضمانت نہ مل سکے ۔
انھوں نے کہا کہ یہ سارے معاملات سیاسی ہیں اور عدالتیں بھی اس سے بخوبی واقف ہیں لہذا انصاف کا تقاضہ ہے کہ اس طرح کی ضمانت عرضی پر فیصلہ کرتے وقت عدالتوں کو اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے ۔ انھوں نے کہا کہ مولانا کے کیس میں مذکورہ جج کے اس آبزرویشن سے میں بالکل اتفاق نہیں کرتا کہ ضمانت ملنے پر ملزم تفتیش کو متاثر کر سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قانون کی اصطلاح میں یہ ایک عام جملہ ہے اور عدالت کو ملکی سیاسی پس منظر کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے تھا ۔
انھوں نے کہا کہ مولانا توقیر رضا کوئی عام ملزم نہیں ہیں، وہ ایک مذہبی اور سیاسی رہنما ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ سرکار نے ان کی بیباک اور بے خوف آواز کو دبانے کے لئے یہ قدم اٹھایا ہے ۔ مولانا تو خود لوگوں سے امن کی اپیل کر رہے تھے اور میرا ماننا ہے کہ اگر انھیں مسجد جانے دیا گیا ہوتا تو کوئی فساد برپا نہ ہوتا ۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ حکومت مولانا کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھ کر بڑی غلطی کر رہی ہے جس کے دور رس منفی نتائج برآمد ہوں گے۔
زیڈ کے فیضان نے دیگر ملی جماعتوں اور مسلم رہنماؤں پر بھی سوال اٹھایا ۔ انھوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا توقیر رضا کے معاملے میں ملی جماعتوں اور مسلم لیڈرشپ کو جس طرح آواز اٹھانی چاہئے تھی، اس نے ایسا نہیں کیا ۔ انھوں نے کہا کہ میری نگاہ میں یہ خاموشی مجرمانہ ہے اور کسی بھی طرح ملت کے مفاد میں نہیں ہے ۔ انھوں نے کہا ملی قیادت میں اگر کوئی کھل کر بہ بانگ دہل آواز بلند کر رہا تھا تو وہ مولانا توقیر رضا ہی تھے اور انھیں اسی کی سزا مل رہی ہے ۔
انھوں نے کہا کہ یہ وقت وہ ہے کہ سبھی کو مسلکی اختلافات سے ہٹ کر مولانا کے لئے آواز بلند کرنی چاہئے ۔ انھوں نے یاد دلایا کہ مولانا کی گرفتاری ایک ٹسٹ کیس ہے اور سرکار ملت کے ردعمل کو پرکھ رہی ہے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ حالات کچھ ایسے بنا دیے گئے ہیں کہ ہم عدالتوں سے بھی انصاف حاصل نہیں کر پا رہے ہیں اور یہ صورت حال ملک کے لئے اچھی نہیں ہے ۔ انھوں نے کہا کہ سرکار کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح کے حالات کسی ملک کو بدامنی کی طرف لے جاتے ہیں اور ملک تباہ ہو جاتا ہے اور سوال کیا کہ کیا سرکار یہی چاہتی ہے۔
آپ کا تبصرہ